Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس؛ سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی

 سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخابی عمل میں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کے خلاف کیس میں محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد...



 سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخابی عمل میں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کے خلاف کیس میں محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔ 


چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ  نے پیپلز پارٹی، جمیعت علماء اسلام اور چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا پر سماعت کی۔ عدالت نے چوہدری شجاعت اور پیپلز پارٹی کو بھی فریق بننے کی اجازت دے دی تھی۔



 

سپریم کورٹ کی جانب سے دوبارہ وفقہ لینے کے بعد محفوظ شدہ فیصلہ سنایا گیا کہ فل بینچ بنانے کی تمام درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں اور یہ ہی تین رکنی بینچ کل ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ فل کورٹ نہ بنانے سے متعلق تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ اس سے قبل دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ فل کورٹ بہت سنجیدہ اور پیچیدہ معاملات میں بنایا جاتا ہے، یہ معاملہ پیچیدہ نہیں ہے۔



 

جس شخص نے 186 کے مقابلے میں 179 ووٹ لیے آج وہ وزیراعلی ہے، چیف جسٹس 


دوران سماعت چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ جس شخص نے 186 کے مقابلے میں 179 ووٹ لیے آج وہ وزیراعلی ہے، حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے۔


قبل ازیں اسی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار کے سابق صدر لطیف آفریدی نے مؤقف اپنایا تھا کہ موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں تمام بار کونسلز کی جانب سے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔


وفقہ سے قبل سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے کا مطلب ہے ہدایات پارلیمانی پارٹی سے آئے گی۔



 

پی پی، جے یو آئی اور چوہدری شجاعت کی کیس میں فریق بننے کی درخواست


پیپلز پارٹی، جمیعت علماء اسلام اور چوہدری شجاعت حسین نے وزیراعلیٰ پنجاب کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کرتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کردی۔ عدالت نے چوہدری شجاعت اور پیپلز پارٹی کو بھی فریق بننے کی اجازت دے دی۔


سماعت میں سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پر آ گئے اور آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ آئینی بحران سے گریز کیلیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے جو تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنے۔


میرے ذہن میں کافی ابہام ہے، وکیل ڈپٹی اسپیکر 


ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے بھی عدالت سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کن نکات پر فل کورٹ سماعت کرے؟۔ عرفان قادر نے کہا کہ میرے ذہن میں کافی ابہام ہے۔


چیف جسٹس نے عرفان قادر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میرے مطابق ہمارے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے، اگر آپ نے ہماری بات نہیں سننی تو کرسی پر بیٹھ جائیں۔ عرفان قادر نے کہا کہ آپ یہ مت سمجھیں ہم یہاں لڑائی کرنے آئے ہیں، عدالت تسلی رکھے ہم صرف یہاں آپکی معاونت کیلیے آئے ہیں۔


جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کیا ڈیکلریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایت ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟، آرٹیکل 63 اے کا سادہ مطلب ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی سے آئے گی۔


وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے اس نکتے کا حوالہ دیا کہ پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ مسترد ہوجائے گا۔


جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی ہدایت اور ڈیکلریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں۔


جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ڈائریکشن دیتا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیکر رولنگ دی، آرٹیکل 63 اے کے اصل ورژن میں دو تین زاویے ہیں، پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں، 18ویں ترمیم سے پہلے آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا، 18ویں ترمیم کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا، پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا، ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے۔


سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے، وکیل حمزہ شہباز


حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کے خلاف ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے، اگر پانچ رکنی بنچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بنچ ہی فیصلہ کر سکتا، آرٹیکل 63 اے کے مختصر فیصلے میں پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی پر بحث موجود نہیں۔


چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 63 اے کی نظرثانی درخواستوں میں صرف ووٹ مسترد ہونے کا نکتہ ہے، پارلیمانی پارٹی ہدایت کیسے دے گی یہ الگ سوال ہے، ہدایت دینے کا طریقہ پارٹی میٹنگ ہوسکتی ہے یا پھر بذریعہ خط، میرے نزدیک مختصر فیصلہ بڑا واضح ہے۔


منصور اعوان نے دلائل دیے کہ چار سیاسی جماعتوں کے سربراہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، مثلا جے یو آئی ف پارٹی سربراہ  مولانا فضل الرحمان کے نام پر ہے، لیکن وہ پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، عوام میں جواب دہ پارٹی سربراہ ہوتا ہے پارلیمانی پارٹی نہیں۔


جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ منحرف رکن کیخلاف پارٹی سربراہ ہی ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، مگر ووٹ کس کو ڈالنا ہے یہ ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی اور ریفرنس سربراہ بھیجے گا، برطانیہ میں تمام اختیارات پارلیمانی پارٹی کے ہوتے ہیں، پارلیمان کے اندر پارٹی سربراہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔


جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلہ درست مانتے ہوئے ہی رولنگ میں اس کا حوالہ دیا تھا، یعنی ووٹ مسترد ہونے کی حد تک عدالتی فیصلہ تسلیم شدہ ہے، سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی تشریح کا ہے کہ درست کی یا نہیں، آئین واضح ہے کہ ارکان کو ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی، آپ کا مؤقف ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی تشریح درست ہے، اگر عدالتی فیصلہ غلط ہے تو ووٹ مسترد بھی نہیں ہو سکتے۔


وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے روسٹرم پر آکر کہا کہ اہم ہدایات ملی ہیں ان سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، لیکن ججز نے ان سے کہا کہ ہدایات سے آگاہ اپنے وکیل کو کریں۔


جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق خط ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا حصہ تھا۔


اعظم نذیر تارڑ نے کارروائی میں پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ منصور اعوان نوجوان اور ان کے کندھوں پر بہت بوجھ ہے۔


عدالت نے منصور اعوان کو وزیر قانون سے ہدایات لینے سے روکتے ہوئے کہا کہ منصور اعوان بہت بہترین دلائل دے رہے ہیں، وزیراعلی پنجاب کے وکیل وزیر قانون سے کیسے ہدایات لے سکتے ہیں۔


منصور اعوان نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کے پہلے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ہدایات عمران خان نے دی تھیں، الیکشن کمیشن نے عمران خان کی ہدایات پر ارکان کو منحرف قرار دیا۔


جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منحرف ارکان اور اس کیس کے حقائق مختلف ہیں، منحرف ارکان کا موقف تھا ہمیں شوکاز اور ہدایات نہیں ملیں، یہاں ایشو مختلف ہے، تمام 10 ممبران نے ووٹ کاسٹ کیا، کسی رکن نے دوسری طرف ووٹ نہیں ڈالا۔


منصور اعوان نے کہا کہ عدالت نے اگر منحرف ارکان کی اپیلیں منظور کر لیں تو کیا ہوگا، اس سے یہ ہوگا کہ 25 ووٹ جو حمزہ کے نکالے گئے وہ دوبارہ شامل کرنا پڑیں گے،  اس لیے فل کورٹ میں متعلقہ مقدمات کو یک جا کر سنا جائے۔


جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ق لیگ کی پارلیمانی پارٹی اجلاس اور ہدایت پر کوئی تنازع نہیں، کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی اجلاس کا فیصلہ تبدیل کر سکتا ہے؟۔


چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ نہ بنانے سے دیگر مقدمات پر عدالت کا فوکس رہا، مقدمات پر فوکس ہونے سے ہی زیر التواء کیسز کم ہو رہے ہیں۔


پرویز الہی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے بڑا کلیئر ہے، پارٹی سربراہ کو پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے مطابق ڈیکلیریشن دینی ہوتی ہے، پارلیمانی پارٹی کی ہدایت تسلیم کرنا ہی جمہوریت ہے، فل کورٹ سے عدالت کو دوسرا سارا کام روکنا پڑتا ہے، حکومت چاہتی ہے کہ حمزہ شہباز عبوری وزیراعلی زیادہ سے زیادہ دیر رہیں، عدالت نے تحریک عدم اعتماد کیس چار دن میں ختم کر دیا تھا۔


علی ظفر نے کہا کہ دیگر مقدمات اس کیس کیساتھ نتھی کرنے سے صرف وقت ضائع ہوگا، سابق بار صدور کا آنا اور دلائل دینا سمجھ سے بالاتر تھا، منحرف ارکان کی اپیلیں اور نظرثانی اس کیس سے منسلک کرنا ذیادتی ہوگی، بحران ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ جلد فیصلہ کیا جائے۔


چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ چوہدری شجاعت حسین کا خط کب اراکین تک پہنچا؟۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ چوہدری شجاعت حسین کا خط ق لیگ کے اراکین تک نہیں پہنچا تھا۔


تحریک انصاف کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ میں لکھا گیا کہ مجھے ابھی چوہدری شجاعت کا خط ملا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کو خط کسی نے آ کر نہیں دیا تھا، ڈپٹی اسپیکر اجلاس کیلئے آئے تو خط انکی جیب میں تھا۔


سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے نکتے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ فیصلہ آج شام کو سنایا جائیگا کہ یہی بینچ کیس سنے گا یا فل کورٹ۔


وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سپریم کورٹ نے فیصلہ نہیں سنایا بلکہ وکلا کو میرٹس پر دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ پر مزید دلائل سننا چاہتے ہیں، چیزوں کی مزید وضاحت چاہتے ہیں، کیس کو میرٹ پر سننے کے بعد دیکھیں گے کہ فل کورٹ ہونا چاہیے یا نہیں۔


چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدہ مسئلہ ہے، ہم اس کیس کو مزید سننا چاہتے ہیں، آج تک جن کیسز میں فل کورٹ بنایا گیا وہ نہایت اہمیت کے معاملے تھے، 21 ویں آئینی ترامیم، چیف جسٹس کو ہٹانا، عدلیہ کی آزادی کے معاملات شامل تھے، پانچ ججوں کے ساتھ ہم نے وزیراعظم کو گھر بھیجا ہے، اس عدالت نے ضمیر کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے، اگر یہ معاملہ تجاوز کا ہوا تو ممکن ہے فل کورٹ میں جائے۔

کوئی تبصرے نہیں